Pages

Eid Gah

 عید گاہ






 The memorial center of Chiniot's wonderful past
The main festival located in the Mahlai Abali area of ​​Chinninnat city was built in the year 1930, where the first gathering of Eid was held in 1934. According to Sheikh Shahid Sagal, President of the Association of Reforms, according to Shaykh Sahgal, two acres of land for the construction of this eclipse The patron of the donkey was donated by Mian Bukhari.
 'On one acre of two acres, four walls were made to make an altar, while at one acre farming planted an idol farmer and used to abstain from his family. He said that when the building was constructed When it was completed, it was surrounded by almonds, peas, walnuts, as well as extremely precious and elegant floral plants, which came to Chinnet on the students' study studies of the Agricultural University Faisalabad.
 He explains that at this time, this place was located in the fields and took place in the fields and built in the construction of Mubayoo's brothers, Mian Ehsan alahi and Mian Prize Alahi. He said that in 1948, Management was handed over to the organization and still spending its repatriation expenses is its organization.
 'Every year this repair work is spent and whitewashed to spend five to seven million rupees, while the electricity bill is the addition of the tube valve in connection with the supply of water to the wudoo.' According to Shaykh Shahid Due to the devastating flood in 1993, all the precious trees and plants planted here were destroyed and the outer wall of the building also damaged. He said that cultivation could not continue here after this flood and Now the eid of the Eid temple has also become dry.
 He told that he was in touch with Headquarters located in Karachi's organization in Karachi for construction of the Eidgah, as soon as the funds were approved, the restoration of the historic building would begin. Or district administration has never taken any initiative to improve the building, but according to its historical significance, this place occupies the place in Chennai. They tell that there is a capacity to read more than 30 thousand prayers in the Eid.
 A few decades ago, people came here to read the 'Eid prayer' from the heart, and because of this, there were also sects in the surrounding fields and fields. "Over 18,000 citizens here on Eid al-Fitr This is the case, whereas it is between 10 to 12 thousand on the court.
 District Bar Chiniot President Malik Mohammad Hussein Mart describes it as the main memorandum of the Shaykh community from Chennai. "Where the Shaikh Shaikh families have played a major role in the domestic economy, they have to improve the social life of Chennai. There have also been a lot of services. "
 He said that the first educational institution in Chennai, Islami High School, was also made by Sheikh Family in 1901, while the District Hospital was also set up in the same building where the first Sheikh family made a free dispensary. He said that terrorism and peace Due to the bad situation of Vamana, the number of people who go to the main entity at the time of Eiden is declining. 'I myself witness that in the near future, the gathering gathered for the festival was more than one lakh It went up but now this number is limited to a few thousand. '


چنیوٹ کے شاندار ماضی کی یادگار مرکزی عید گاہ

چنیوٹ شہر کے محلہ عالی میں واقع مرکزی عید گاہ 1930ء کی دہائی میں تعمیر کی گئی تھی جہاں عید کا پہلا اجتماع 1934ء میں منعقد ہوا تھا۔
انجمن اصلاح المسلین کے صدر شیخ شاہد سہگل کے مطابق اس عید گاہ کی تعمیر کے لئے دو ایکڑ اراضی انجمن کے سرپرست میاں بخش الہی نے عطیہ کی تھی۔
 
'دو ایکڑ رقبے میں سے ایک ایکڑ پر چار دیواری کر کے عید گاہ بنا دی گئی جبکہ ایک ایکڑ جگہ پر عید گاہ کے متولی کاشت کاری کر کے اپنا اور اپنے اہلخانہ کا پیٹ پالتے تھے۔'
انہوں نے بتایا کہ جب عید گاہ کی تعمیر مکمل ہو گئی تو اس کے اردگرد بادام، آڑو، اخروٹ کے ساتھ ساتھ انتہائی قیمتی اور خوشنما پھولوں کے پودے لگائے گئے جنہیں دیکھنے کے لئے زرعی یونیورسٹی فیصل آباد کے طلبہ مطالعاتی دوروں پر چنیوٹ آتے تھے۔
 
وہ بتاتے ہیں کہ اس وقت یہ جگہ شہر سے تھوڑا ہٹ کر کھیتوں میں واقع تھی اور اس کی تعمیر میں میاں بخش کے بھائیوں میاں احسان الہی اور میاں انعام الہی نے بھی کافی مدد کی تھی۔
انہوں نے بتایا کہ 1948ء میں اس عید گاہ کا انتظام انجمن کے سپرد کر دیا گیا اور اب بھی اس کی تزئیں و آرائش کے اخراجات ان کی تنظیم ہی برداشت کر رہی ہے۔
 
'ہر سال اس عید گاہ میں مرمت کا کام اور سفیدی کروانے پر پانچ سے سات لاکھ روپے خرچ آتا ہے جبکہ وضو کرنے کے لئے پانی کی فراہمی کے سلسلے میں نصب ٹیوب ویل کا بجلی کا بل اس کے علاوہ ہے۔'
شیخ شاہد کے مطابق 1993ء میں آنے والے تباہ کن سیلاب کی وجہ سے یہاں لگائے گئے تمام قیمتی درخت اور پودے تباہ ہو گئے جبکہ عمارت کی بیرونی دیوار کو بھی نقصان پہنچا۔
ان کا کہنا تھا کہ اس سیلاب کے بعد یہاں کاشت کاری کا سلسلہ جاری نہ رہ سکا اور اب عید گاہ کی چاردیواری بھی خستہ حال ہو چکی ہے۔
 
انہوں نے بتاتیا کہ عید گاہ کی تعمیر نو کے لئے وہ اپنی تنظیم کے کراچی میں واقع ہیڈ آفس کے ساتھ رابطے میں ہیں جیسے ہی فنڈز کی منظوری ملی اس تاریخی عمارت کی بحالی کا کام شروع ہو جائے گا۔'
ان کا کہنا تھا کہ حکومت یا ضلعی انتظامیہ نے اس عمارت کی بہتری کے لئے کبھی کوئی اقدام نہیں کیا حالانکہ اپنی تاریخی اہمیت کے لحاظ سے یہ جگہ چنیوٹ میں اہم مقام رکھتی ہے۔
وہ بتاتے ہیں کہ عید گاہ میں 30 ہزار سے زائد نمازیوں کے نماز پڑھنے کی گنجائش ہے۔
 
چند دہائیاں قبل تک لوگ ذوق و شوق سے عید کی نماز پڑھنے یہاں آتے تھے جس کی وجہ سے عیدگاہ کے علاوہ اردگرد کے میدان اور کھیتوں میں بھی صفیں بچھائی جاتی تھیں۔
'رواں سال عید الفطر پر یہاں 18 ہزار سے زائد شہریوں نے نماز عید ادا کی تھی جبکہ عدالضحیٰ پر یہ تعداد 10 سے 12 ہزار کے درمیان ہوتی ہے۔'
 
ڈسٹرکٹ بار چنیوٹ کے صدر ملک محمد حسین مارتھ اسے چنیوٹ سے تعلق رکھنے والی شیخ برادری کی اہم یادگار قرار دیتے ہیں۔
'چنیوٹی شیخ گھرانوں نے جہاں ملکی معیشت میں اہم کردار ادا کیا ہے وہیں انہوں نے چنیوٹ کی سماجی زندگی کو بہتر بنانے کی غرض سے بھی گرانقدر خدمات سرانجام دی ہیں۔'
 
انہوں نے بتایا کہ چنیوٹ میں سب سے پہلا تعلیمی ادارہ اسلامیہ ہائی سکول بھی 1901ء میں شیخ فیملی نے بنایا تھا جبکہ ڈسٹرکٹ ہسپتال بھی اسی عمارت میں قائم ہے جہاں پہلے شیخ فیملی نے مفت ڈسپنسری بنائی تھی۔
ان کا کہنا تھا کہ دہشت گردی اور امن وامان کی خراب صورتحال کے سبب عیدین کے موقع پر مرکزی عید گاہ جانے والوں کی تعداد میں مسلسل کمی آ رہی ہے۔
'میں خود اس بات کا گواہ ہوں کہ ماضی قریب میں اس جگہ نماز عید کے لئے جمع ہونے والا مجمع ایک لاکھ سے بھی اوپر چلا جاتا تھا لیکن اب یہ تعداد چند ہزار تک محدود ہو گئی ہے۔'

No comments:

Post a Comment